یادداشت کمزور ہونا بھول جائیں! سینیئرز کے لیے دماغی صحت کا مؤثر پروگرام

webmaster

시니어 뇌 건강 프로그램 - **Prompt:** A vibrant, high-definition photographic image capturing a diverse group of cheerful seni...

کیا آپ نے کبھی محسوس کیا ہے کہ جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے، یادداشت اور توجہ کچھ کمزور پڑنے لگتی ہے؟ یہ ایک عام بات ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ اب ایسے دلچسپ اور مؤثر طریقے آ گئے ہیں جو ہمارے دماغ کو پھر سے چمکدار اور چست بنا سکتے ہیں؟ میں نے خود اپنے ارد گرد بہت سے ایسے بزرگوں کو دیکھا ہے جو اس چیلنج سے دوچار ہیں، اور مجھے ہمیشہ یہ فکر رہتی ہے کہ انہیں بہترین مدد کیسے ملے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے حال ہی میں بزرگوں کے لیے دماغی صحت کے جدید پروگرامز پر گہرا غور کیا ہے۔ مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ آج کی دنیا میں صرف جسمانی صحت ہی نہیں بلکہ دماغی صحت پر بھی خصوصی توجہ دی جا رہی ہے تاکہ ہمارے پیارے بزرگ اپنی زندگی کے سنہرے سال بھرپور طریقے سے گزار سکیں۔ یہ پروگرامز دماغ کو فعال رکھنے، یادداشت کو تیز کرنے اور ذہنی سکون فراہم کرنے میں حیرت انگیز ثابت ہو رہے ہیں۔ تو کیا آپ تیار ہیں اپنے دماغ کو ایک نئی توانائی دینے کے لیے؟ آئیے، ذیل کے مضمون میں ہم اس بارے میں تفصیل سے جانتے ہیں۔

دماغی صحت کے جدید پروگرامز کا تعارف اور ان کی اہمیت

시니어 뇌 건강 프로그램 - **Prompt:** A vibrant, high-definition photographic image capturing a diverse group of cheerful seni...

میرے خیال میں، زندگی کے اس حصے میں جب ہم اپنے جسمانی آرام پر زیادہ توجہ دیتے ہیں، دماغی صحت کو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ لیکن سچ کہوں تو، جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے، ہمارا دماغ ہی سب سے قیمتی اثاثہ بن جاتا ہے جسے فعال اور چست رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ آج کل تو جدید ٹیکنالوجی اور سائنسی تحقیق نے ایسی راہیں کھول دی ہیں جو بزرگوں کی دماغی صحت کو نہ صرف برقرار رکھ سکتی ہیں بلکہ اسے مزید بہتر بنا سکتی ہیں۔ میں نے خود اپنے عزیز و اقارب میں دیکھا ہے کہ جب یادداشت کمزور پڑنے لگتی ہے یا توجہ مرکوز کرنے میں مشکل پیش آتی ہے تو ان کا خود اعتمادی بھی متاثر ہوتی ہے۔ یہ پروگرامز محض دماغی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لیے نہیں ہیں بلکہ یہ ہماری مجموعی زندگی کے معیار کو بلند کرتے ہیں۔ سوچئے، ایک ایسا وقت جب آپ اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ بیٹھ کر پرانی کہانیاں سنا رہے ہوں اور ہر چیز آپ کو واضح طور پر یاد ہو، یا آپ کسی نئی مہارت کو سیکھنے کی کوشش کر رہے ہوں اور آپ کا دماغ پوری طرح سے آپ کا ساتھ دے رہا ہو۔ یہ پروگرامز اسی خواب کو حقیقت بنانے میں مدد دیتے ہیں۔ ان پروگرامز کا مقصد صرف بیماریوں سے بچانا نہیں ہے، بلکہ زندگی کو مکمل طور پر جینا سکھانا ہے، جہاں ہر دن ایک نیا چیلنج ہو اور آپ اس کے لیے پوری طرح تیار ہوں۔ ان میں ذہنی مشقیں، سماجی میل جول اور صحت مند طرز زندگی کے اصول شامل ہیں، جنہیں ایک مربوط انداز میں ڈیزائن کیا گیا ہے۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ جو بزرگ ان سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں، ان کے چہرے پر ایک الگ ہی رونق اور آنکھوں میں چمک ہوتی ہے، جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ اندر سے کتنا مطمئن اور خوش ہیں۔

کیوں دماغی صحت اب زیادہ اہم ہو گئی ہے؟

آج کے دور میں جہاں زندگی کی رفتار بہت تیز ہے، دماغی صحت کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ پہلے لوگ شاید اتنی اہمیت نہیں دیتے تھے، لیکن اب حالات بہت بدل گئے ہیں۔ بزرگوں میں ڈیمینشیا، الزائمر جیسی بیماریوں کا بڑھتا ہوا رجحان اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ہمیں اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ میری دادی اماں کو جب چھوٹی چھوٹی باتیں بھولنے لگیں تو مجھے احساس ہوا کہ محض یادداشت کا کمزور ہونا ہی مسئلہ نہیں بلکہ یہ شخصیت پر بھی گہرا اثر ڈالتا ہے۔ وہ اکثر پریشان رہنے لگیں اور ان کا مزاج بھی چڑچڑا ہو گیا تھا۔ جدید طبی سائنس نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ دماغ بھی ایک پٹھا ہے جسے باقاعدہ ورزش کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ہم اسے فعال نہ رکھیں تو یہ بھی کمزور پڑ سکتا ہے۔ آج کے پروگرامز صرف علامات کا علاج نہیں کرتے بلکہ بنیادی وجوہات پر کام کرتے ہیں تاکہ دماغ کی صحت کو جڑ سے مضبوط کیا جا سکے۔ یہ پروگرامز ہمیں زندگی کے ہر مرحلے پر چیلنجز کا سامنا کرنے اور نئے حالات کے مطابق ڈھلنے کی صلاحیت دیتے ہیں۔ ان میں نفسیاتی مشاورت، علمی مشقیں اور ذہنی سکون کی تکنیکیں شامل ہوتی ہیں جو دماغ کو ایک مکمل پیکج کے طور پر فائدہ پہنچاتی ہیں۔

نئے پروگرامز کس طرح کام کرتے ہیں؟

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ جدید پروگرامز آخر کس طرح کام کرتے ہیں؟ میں نے جب ان کے بارے میں پڑھنا شروع کیا تو مجھے بہت حیرت ہوئی کہ کتنی سائنسی اور منظم طریقے سے یہ ڈیزائن کیے گئے ہیں۔ یہ پروگرامز صرف ایک پہلو پر نہیں بلکہ دماغی صحت کے تمام پہلوؤں پر کام کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ان میں ایسی مشقیں شامل ہوتی ہیں جو یادداشت کو تیز کرتی ہیں، توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت کو بڑھاتی ہیں اور فیصلہ سازی کو بہتر بناتی ہیں۔ اکثر ان میں کمپیوٹر پر مبنی کھیل، پزل اور منطقی مشقیں شامل ہوتی ہیں جو دماغ کے مختلف حصوں کو متحرک کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ، جسمانی سرگرمیوں کو بھی دماغی صحت کے ساتھ جوڑا جاتا ہے کیونکہ ایک صحت مند جسم ہی ایک صحت مند دماغ کی بنیاد ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میرے ایک پڑوسی ان پروگرامز میں شامل ہوئے تو انہوں نے بتایا کہ کیسے انہیں شروع میں تو بہت مشکل لگی لیکن آہستہ آہستہ ان کی ذہنی کارکردگی میں واضح بہتری آئی۔ وہ کہتے تھے کہ یہ صرف کھیل نہیں ہیں بلکہ آپ کے دماغ کے لیے ایک مکمل ‘ورک آؤٹ’ ہے جو اسے چاک و چوبند رکھتا ہے۔ ان پروگرامز میں اکثر گروپس میں کام کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے، جس سے سماجی روابط بھی مضبوط ہوتے ہیں، جو کہ دماغی صحت کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ پروگرامز ہمارے بزرگوں کو ایک نئی امید اور زندگی کا ایک نیا مقصد دے رہے ہیں۔

یادداشت کو تیز کرنے والی مشقیں اور ان کا طریقہ کار

یادداشت کا تیز ہونا صرف طلباء کے لیے ہی نہیں بلکہ بزرگوں کے لیے بھی انتہائی ضروری ہے۔ مجھے خود یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے جب میرے ارد گرد کے بزرگ چھوٹے بچوں کی طرح نئی چیزیں سیکھنے اور اپنی یادداشت کو چیلنج کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ یہ مشقیں صرف تفریح کا ذریعہ نہیں ہیں بلکہ یہ ہمارے دماغ کے ان حصوں کو متحرک کرتی ہیں جو معلومات کو ذخیرہ کرنے اور یاد رکھنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ جیسے کہ ہم اپنے جسم کے پٹھوں کو مضبوط رکھنے کے لیے ورزش کرتے ہیں، بالکل اسی طرح دماغ کو بھی اپنی صلاحیتوں کو برقرار رکھنے کے لیے باقاعدہ مشقوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ میرے ایک دوست کے والد صاحب جو حال ہی میں 80 سال کے ہوئے ہیں، انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ روزانہ کراس ورڈ پزل حل کرتے ہیں اور سودا سلف کی فہرست کو بغیر دیکھے یاد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ چھوٹی چھوٹی مشقیں انہیں ذہنی طور پر بہت فعال رکھتی ہیں۔ ان مشقوں کا ایک سب سے اچھا پہلو یہ ہے کہ انہیں گھر بیٹھے بھی آسانی سے کیا جا سکتا ہے اور ان کے لیے کسی خاص ساز و سامان کی ضرورت نہیں ہوتی۔ آپ کو صرف تھوڑی سی لگن اور دلچسپی کی ضرورت ہے، باقی سب دماغ خود بخود سنبھال لیتا ہے۔

روایتی کھیل اور ان کا جدید استعمال

ہم بچپن میں جو روایتی کھیل کھیلتے تھے، جیسے شطرنج، لڈو یا تاش کے کھیل، وہ آج بھی دماغی صحت کے لیے بہت مفید ہیں۔ یہ کھیل صرف وقت گزاری کا ذریعہ نہیں بلکہ یہ ہماری یادداشت، حکمت عملی بنانے کی صلاحیت اور توجہ کو بڑھاتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ میرے نانا جان شطرنج کے بہت شوقین تھے اور وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ یہ کھیل آپ کے دماغ کو ہر وقت سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ آج کے جدید پروگرامز میں ان ہی روایتی کھیلوں کو نئے انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔ کچھ ایپس اور آن لائن پلیٹ فارمز پر آپ ان کھیلوں کو ڈیجیٹل شکل میں کھیل سکتے ہیں، جہاں آپ کو مختلف سطحوں کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور آپ کی دماغی صلاحیتوں کا امتحان لیا جاتا ہے۔ یہ ڈیجیٹل ورژن آپ کو دنیا بھر کے دیگر کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنے کا موقع بھی دیتے ہیں، جس سے مقابلہ کی فضا بنتی ہے اور آپ مزید بہتر کارکردگی دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ جب میں اپنے والدین کو لڈو یا کیرم کھیلتے دیکھتا ہوں تو ان کے چہروں پر ایک الگ ہی خوشی اور چمک ہوتی ہے، جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ کھیل ان کے لیے صرف تفریح ہی نہیں بلکہ ایک ذہنی ورزش بھی ہیں۔

یادداشت کی تربیت کے لیے خصوصی ورکشاپس

کچھ جدید پروگرامز میں بزرگوں کے لیے یادداشت کی خصوصی تربیت کی ورکشاپس بھی منعقد کی جاتی ہیں۔ ان ورکشاپس میں ماہرین نفسیات اور میموری ٹرینرز مختلف تکنیکیں سکھاتے ہیں جن کے ذریعے یادداشت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ میں نے ایک بار ایسے ہی ایک ورکشاپ کے بارے میں سنا تھا جہاں شرکاء کو چیزوں کو تصاویر کے ساتھ جوڑ کر یاد رکھنے یا کہانیاں بنا کر معلومات کو ذہن نشین کرنے کے طریقے سکھائے جا رہے تھے۔ یہ تکنیکیں بہت دلچسپ ہوتی ہیں اور ان کا استعمال روزمرہ کی زندگی میں بھی کیا جا سکتا ہے۔ فرض کیجئے کہ آپ کو کسی نئے شخص کا نام یاد رکھنا ہے، تو آپ اسے کسی ایسی چیز سے جوڑ سکتے ہیں جو آپ کو پہلے سے یاد ہو۔ اس طرح آپ کا دماغ نئے نام کو آسانی سے محفوظ کر لیتا ہے۔ یہ ورکشاپس نہ صرف علمی لحاظ سے فائدہ مند ہوتی ہیں بلکہ یہ سماجی روابط کو بھی فروغ دیتی ہیں کیونکہ شرکاء ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہیں اور اپنے تجربات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ میرے پڑوس میں ایک آنٹی نے ایسی ہی ایک ورکشاپ میں حصہ لیا تھا اور وہ بہت خوش تھیں کہ انہیں بہت کچھ نیا سیکھنے کو ملا۔ انہوں نے بتایا کہ اب انہیں سودا سلف کی فہرست بنانے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ وہ سب کچھ ذہن میں بٹھا لیتی ہیں۔ یہ واقعی قابل تعریف بات ہے۔

میری ذاتی رائے: مشقوں سے فائدہ کیسے ہوا؟

میں نے خود یہ محسوس کیا ہے کہ جب میں کوئی نئی زبان سیکھنے کی کوشش کرتا ہوں یا کوئی نئی مہارت حاصل کرتا ہوں، تو میرا دماغ زیادہ فعال اور چست محسوس ہوتا ہے۔ یہ وہی احساس ہے جو بزرگوں کو ان دماغی مشقوں سے حاصل ہوتا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ دماغ کو مسلسل چیلنج کرتے رہنا بہت ضروری ہے، چاہے وہ کوئی پزل حل کرنا ہو، کوئی نئی کتاب پڑھنا ہو یا کسی نئے موضوع پر بحث کرنا ہو۔ جب آپ اپنے دماغ کو مصروف رکھتے ہیں تو یہ زنگ آلود ہونے سے بچ جاتا ہے۔ میری والدہ بھی ان مشقوں کی بہت تعریف کرتی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ یہ انہیں نہ صرف ذہنی طور پر فعال رکھتی ہیں بلکہ ان کے موڈ کو بھی بہتر بناتی ہیں۔ انہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ زندگی کے ہر پہلو کو زیادہ پرجوش طریقے سے دیکھ رہی ہیں۔ یہ مشقیں ایک قسم کی ‘ذہنی ورزش’ ہیں جو دماغ کو مضبوط اور لچکدار بناتی ہیں۔ اس سے ہماری روزمرہ کی زندگی میں بھی بہتری آتی ہے، ہم زیادہ منظم اور موثر طریقے سے کام کر سکتے ہیں۔ یہ محض یادداشت کی بات نہیں ہے بلکہ یہ ہماری سوچنے سمجھنے کی صلاحیت، تخلیقی صلاحیت اور فیصلہ سازی کی قوت کو بھی بڑھاتی ہے۔ تو اگر آپ بھی اپنے دماغ کو چمکدار اور چست رکھنا چاہتے ہیں، تو ان مشقوں کو اپنی روزمرہ کی روٹین کا حصہ ضرور بنائیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کو بہت فائدہ ہوگا۔

Advertisement

ذہنی چستی بڑھانے والے ڈیجیٹل ٹولز اور ایپس

آج کا دور ڈیجیٹل انقلاب کا دور ہے، اور یہ انقلاب بزرگوں کی دماغی صحت کے لیے بھی بے پناہ مواقع لے کر آیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک وقت تھا جب کمپیوٹر اور اسمارٹ فون صرف نوجوانوں کی چیز سمجھے جاتے تھے، لیکن اب ہمارے بزرگ بھی ان ٹولز کو اپنا رہے ہیں اور ان سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ جب میں اپنے دادا ابو کو ٹیبلٹ پر گیمز کھیلتے یا آن لائن پزل حل کرتے دیکھتا ہوں تو مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔ یہ صرف تفریح کا ذریعہ نہیں ہیں بلکہ یہ ہمارے دماغ کو ایک بالکل نئے انداز میں چیلنج کرتے ہیں۔ یہ ڈیجیٹل ٹولز اور ایپس خاص طور پر اس طرح ڈیزائن کیے گئے ہیں کہ وہ یادداشت، توجہ، مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت اور ردعمل کے وقت کو بہتر بنائیں۔ ان کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ کہیں بھی اور کسی بھی وقت استعمال کیے جا سکتے ہیں، چاہے آپ گھر پر ہوں، سفر میں ہوں یا کسی دوست کے ساتھ وقت گزار رہے ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر انہیں صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے تو یہ ہمارے بزرگوں کی زندگی میں ایک مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں۔ کچھ ایپس تو اتنی صارف دوست ہیں کہ انہیں استعمال کرنا بچوں کا کھیل ہے۔

اسمارٹ فون اور ٹیبلٹ پر دستیاب ایپس

آج کل مارکیٹ میں اسمارٹ فونز اور ٹیبلٹس کے لیے لاتعداد ایپس دستیاب ہیں جو دماغی صحت کو بہتر بنانے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ میں نے خود کچھ ایسی ایپس کا جائزہ لیا ہے اور مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ وہ کتنی مؤثر ہو سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر، کچھ ایپس میں روزانہ کی بنیاد پر یادداشت کی مشقیں، منطقی پزل اور ریاضی کے مسائل دیے جاتے ہیں۔ یہ ایپس آپ کی کارکردگی کو ٹریک بھی کرتی ہیں اور آپ کو بتاتی ہیں کہ آپ کس شعبے میں بہتر کر رہے ہیں اور کہاں مزید توجہ کی ضرورت ہے۔ میرے ایک چچا جان نے ‘برین ٹریننگ’ نامی ایک ایپ کا استعمال شروع کیا تھا اور ان کا کہنا تھا کہ اس سے ان کی توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت میں بہتری آئی ہے۔ پہلے انہیں کتاب پڑھتے ہوئے جلدی تھکن ہو جاتی تھی لیکن اب وہ زیادہ دیر تک پڑھ سکتے ہیں۔ ان ایپس کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ یہ انٹریکٹو ہوتی ہیں، یعنی یہ آپ کو براہ راست فیڈ بیک دیتی ہیں اور آپ کو مزید چیلنجز دیتی رہتی ہیں۔ یہ آپ کو بور نہیں ہونے دیتیں اور آپ کو دماغی طور پر مصروف رکھتی ہیں۔ تو اگر آپ کے پاس ایک اسمارٹ فون یا ٹیبلٹ ہے تو اسے صرف کال کرنے یا ویڈیوز دیکھنے کے لیے استعمال نہ کریں، بلکہ اسے اپنے دماغ کو تیز کرنے کے لیے بھی استعمال کریں۔

آن لائن دماغی کھیل اور ان کے فوائد

اسمارٹ فون ایپس کے علاوہ، بہت سی ویب سائٹس بھی ایسی ہیں جو بزرگوں کے لیے آن لائن دماغی کھیل پیش کرتی ہیں۔ یہ کھیل مختلف اقسام کے ہوتے ہیں، جیسے میموری گیمز، ورڈ پزل، سڈوکو اور منطقی مسائل۔ ان کا مقصد دماغ کے مختلف حصوں کو متحرک کرنا اور علمی صلاحیتوں کو بہتر بنانا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں چھوٹا تھا تو میرا پڑوسی آن لائن شطرنج کا بہت شوقین تھا اور وہ ہمیشہ کہتا تھا کہ یہ اسے ذہنی طور پر چست رکھتا ہے۔ ان آن لائن کھیلوں کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ آپ انہیں دنیا بھر کے دیگر کھلاڑیوں کے ساتھ کھیل سکتے ہیں، جس سے مقابلہ کی فضا بنتی ہے اور آپ کو اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کی ترغیب ملتی ہے۔ یہ کھیل نہ صرف تفریح فراہم کرتے ہیں بلکہ یہ آپ کے دماغ کو نئے چیلنجز کا سامنا کرنے کی تربیت بھی دیتے ہیں۔ جب آپ باقاعدگی سے ان کھیلوں کو کھیلتے ہیں تو آپ کے دماغ کے اندر نیورانز کے نئے کنکشن بنتے ہیں، جس سے آپ کی علمی صلاحیتیں مضبوط ہوتی ہیں۔ یہ ایک قسم کی ‘ڈیجیٹل ایکسرسائز’ ہے جو آپ کے دماغ کو جوان اور توانا رکھتی ہے۔ تو اگر آپ بھی اپنے دماغ کو ایک نئی توانائی دینا چاہتے ہیں تو ان آن لائن دماغی کھیلوں کو ضرور آزمائیں۔

غذائی حکمت عملی اور دماغی صحت کا گہرا تعلق

میں نے ہمیشہ یہ سنا ہے کہ “جیسا کھاؤ گے ان ویسا ہوگا من”، اور دماغی صحت کے معاملے میں یہ بات 100 فیصد سچ ثابت ہوتی ہے۔ ہمارا دماغ ہمارے جسم کا سب سے پیچیدہ اور توانائی طلب عضو ہے، اور اسے صحیح طریقے سے کام کرنے کے لیے بہترین غذائی اجزاء کی ضرورت ہوتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میری نانی ہمیشہ کہتی تھیں کہ اچھی خوراک دوا سے بہتر ہے۔ یہ صرف جسمانی صحت کے لیے ہی نہیں بلکہ دماغی صحت کے لیے بھی بالکل درست ہے۔ جب میں نے خود اس بارے میں گہرائی سے تحقیق کی تو مجھے اندازہ ہوا کہ کن غذاؤں کا استعمال دماغ کو تیز اور فعال رکھ سکتا ہے۔ یہ صرف مہنگی غذائیں نہیں ہیں بلکہ ایسی عام چیزیں ہیں جو ہماری روزمرہ کی خوراک کا حصہ بن سکتی ہیں۔ مجھے افسوس ہوتا ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے بہت سے بزرگ صرف اس لیے غذائی اجزاء کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ انہیں صحیح معلومات نہیں ہوتی یا وہ اپنی خوراک پر توجہ نہیں دیتے۔ ایک صحت مند خوراک نہ صرف یادداشت کو بہتر بناتی ہے بلکہ یہ دماغی امراض کے خطرے کو بھی کم کرتی ہے اور آپ کے موڈ کو بھی بہتر بناتی ہے۔ تو اگر آپ اپنے دماغ کو ایک لمبی اور صحت مند زندگی دینا چاہتے ہیں تو اپنی خوراک پر خصوصی توجہ دیں۔

دماغ کو طاقت دینے والی غذائیں

دماغ کو طاقت دینے والی غذاؤں کی ایک لمبی فہرست ہے، لیکن میں چند ایسی اہم غذاؤں کا ذکر کروں گا جنہیں اپنی خوراک کا حصہ بنانا بہت آسان ہے۔ سب سے پہلے، اومیگا تھری فیٹی ایسڈز سے بھرپور غذائیں، جیسے مچھلی (خاص طور پر سالمن اور سارڈینز)، اخروٹ اور السی کے بیج، دماغی خلیوں کی صحت کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ میرے والد ہمیشہ مچھلی کھانے پر زور دیتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ دماغ کے لیے بہت اچھی ہوتی ہے۔ دوسرے نمبر پر، اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور پھل اور سبزیاں، جیسے بیریز (اسٹرابیری، بلیو بیری)، پتے والی سبزیاں (پالک، ساگ) اور بروکولی، دماغ کو آزاد ریڈیکلز کے نقصان سے بچاتے ہیں۔ یہ ایک قسم کی ڈھال ہیں جو ہمارے دماغ کو محفوظ رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ، ثابت اناج، جیسے براؤن رائس، دلیا اور ہول ویٹ بریڈ، دماغ کو مسلسل توانائی فراہم کرتے ہیں، کیونکہ یہ گلوکوز کو آہستہ آہستہ خارج کرتے ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر ڈارک چاکلیٹ بھی بہت پسند ہے جو فلیوونائڈز سے بھرپور ہوتی ہے اور دماغی کارکردگی کو بہتر بناتی ہے۔ یہ تمام غذائیں ہمارے دماغ کو نہ صرف توانائی دیتی ہیں بلکہ اسے بیماریوں سے بھی بچاتی ہیں۔

کن غذاؤں سے پرہیز کرنا چاہیے؟

جس طرح کچھ غذائیں دماغ کے لیے مفید ہیں، اسی طرح کچھ غذائیں ایسی بھی ہیں جن سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔ سب سے پہلے، زیادہ پروسیسڈ غذائیں، جیسے فاسٹ فوڈ، تلی ہوئی چیزیں اور میٹھے مشروبات، دماغی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ ان میں ٹرانس فیٹس اور اضافی شکر کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے جو دماغی سوزش کا باعث بن سکتی ہے۔ میری خالہ اکثر فاسٹ فوڈ کی شوقین تھیں اور انہیں بعد میں یادداشت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ڈاکٹر نے انہیں ان چیزوں سے پرہیز کا مشورہ دیا تھا۔ دوسرے نمبر پر، مصنوعی مٹھاس اور زیادہ نمک کا استعمال بھی دماغ پر منفی اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ ان کی بجائے قدرتی مٹھاس، جیسے شہد یا کھجور، کا استعمال زیادہ بہتر ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میرے دادا ابو ہمیشہ سادگی سے کھانا کھاتے تھے اور کم نمک کا استعمال کرتے تھے۔ ان کا دماغ آخر دم تک بہت تیز تھا۔ ان غذاؤں سے پرہیز کرنا مشکل ہو سکتا ہے، خاص طور پر جب آپ ان کے عادی ہو چکے ہوں، لیکن اگر آپ اپنے دماغ کی صحت کو ترجیح دیتے ہیں تو یہ چھوٹی سی قربانی بہت بڑے فوائد دے سکتی ہے۔ یہ صرف چند دنوں کی بات ہوتی ہے، پھر آپ کو خود ہی ان چیزوں کی عادت پڑ جاتی ہے اور آپ ان کے بغیر بھی لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔

دماغی صحت کے لیے مفید غذائیں فوائد
اومیگا تھری فیٹی ایسڈز (مچھلی، اخروٹ) دماغی خلیوں کی صحت، یادداشت کی بہتری
اینٹی آکسیڈنٹس (بیریز، پالک، بروکولی) دماغ کو نقصان سے بچاؤ، سوزش میں کمی
ثابت اناج (دلیا، براؤن رائس) دماغ کو مسلسل توانائی فراہم
ڈارک چاکلیٹ دماغی کارکردگی میں بہتری، موڈ اچھا کرنا
نٹس اور سیڈز (بادام، سورج مکھی کے بیج) وٹامنز اور معدنیات کی فراہمی
Advertisement

سماجی سرگرمیاں اور دماغ پر ان کے مثبت اثرات

ہم انسان سماجی مخلوق ہیں، اور یہ بات ہمارے دماغ پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے جب ہمارے بزرگ ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارتے ہیں، ہنستے ہیں اور اپنے تجربات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ یہ صرف وقت گزاری نہیں بلکہ یہ ہمارے دماغ کے لیے ایک بہترین ورزش ہے۔ جب ہم سماجی میل جول کرتے ہیں تو ہمارا دماغ متحرک رہتا ہے، ہمیں نئی معلومات پر کارروائی کرنی پڑتی ہے، لوگوں کے جذبات کو سمجھنا پڑتا ہے اور ان کے ساتھ بات چیت کرنی پڑتی ہے۔ یہ سب دماغی صلاحیتوں کو تیز کرتا ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ جو بزرگ تنہا رہتے ہیں، وہ اکثر اداسی اور دماغی کمزوری کا شکار ہو جاتے ہیں، جبکہ جو لوگ سماجی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں، وہ زیادہ خوش اور فعال نظر آتے ہیں۔ یہ صرف میری رائے نہیں بلکہ سائنسی تحقیق بھی اس بات کی تائید کرتی ہے کہ سماجی روابط دماغی صحت کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ تو اگر آپ اپنے دماغ کو جوان رکھنا چاہتے ہیں تو لوگوں سے ملتے جلتے رہیں، نئے دوست بنائیں اور سماجی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ یہ آپ کو نہ صرف ذہنی طور پر بلکہ جذباتی طور پر بھی مضبوط کرے گا۔

بزرگوں کے لیے کلب اور کمیونٹی سینٹرز

시니어 뇌 건강 프로그램 - **Prompt:** A realistic and warm photographic image depicting a group of elderly men and women, of d...

آج کل بہت سے شہروں میں بزرگوں کے لیے خصوصی کلب اور کمیونٹی سینٹرز قائم کیے جا رہے ہیں۔ یہ جگہیں بزرگوں کو ایک دوسرے سے ملنے جلنے، مختلف سرگرمیوں میں حصہ لینے اور نئے دوست بنانے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ میرے دادا ابو جب ایک کمیونٹی سینٹر میں جانے لگے تو ان کی زندگی میں ایک نئی جان آ گئی تھی۔ وہ وہاں مختلف کھیل کھیلتے تھے، کتابیں پڑھتے تھے اور دیگر بزرگوں کے ساتھ دنیا جہان کی باتیں کرتے تھے۔ ان مراکز میں اکثر مختلف ورکشاپس اور لیکچرز بھی منعقد کیے جاتے ہیں جو بزرگوں کو نئی معلومات فراہم کرتے ہیں اور ان کی علمی صلاحیتوں کو بہتر بناتے ہیں۔ یہ مراکز انہیں تنہائی کے احساس سے بچاتے ہیں اور انہیں ایک مقصد دیتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک بہترین اقدام ہے کیونکہ یہ نہ صرف بزرگوں کو مصروف رکھتا ہے بلکہ انہیں ایک صحت مند سماجی ماحول بھی فراہم کرتا ہے۔ ان مراکز میں جانے سے انہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ اکیلے نہیں ہیں اور ان کے جیسے اور بھی لوگ ہیں جن کے ساتھ وہ اپنے دکھ سکھ بانٹ سکتے ہیں۔ یہ ایک قسم کا ‘سماجی وٹامن’ ہے جو دماغ کو تروتازہ رکھتا ہے۔

خاندان اور دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے کی اہمیت

سماجی سرگرمیوں میں سب سے اہم بات خاندان اور دوستوں کے ساتھ وقت گزارنا ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے جب بچے اپنے دادا دادی کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں، کھیل کھیلتے ہیں یا ان سے کہانیاں سنتے ہیں۔ یہ صرف بچوں کے لیے ہی نہیں بلکہ بزرگوں کے لیے بھی ایک بہترین ذہنی ورزش ہے۔ جب آپ اپنے پیاروں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں تو آپ کا دماغ خوشی کے ہارمونز خارج کرتا ہے، جو ذہنی دباؤ کو کم کرتے ہیں اور موڈ کو بہتر بناتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ میری نانی ہمیشہ کہتی تھیں کہ اپنے بچوں اور پوتوں پوتیوں کے ساتھ وقت گزارنا ان کے لیے کسی دوا سے کم نہیں ہے۔ یہ ان کی یادداشت کو بھی تیز کرتا ہے کیونکہ وہ پرانی یادیں تازہ کرتے ہیں اور نئے تجربات بانٹتے ہیں۔ اس کے علاوہ، دوستوں کے ساتھ گپ شپ کرنا، ہنسی مذاق کرنا اور کسی تقریب میں شرکت کرنا بھی دماغی صحت کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ تو اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بزرگوں کا دماغ فعال اور صحت مند رہے تو انہیں خاندان اور دوستوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کی ترغیب دیں۔ یہ ایک ایسا نسخہ ہے جس کا کوئی سائیڈ ایفیکٹ نہیں ہے اور اس کے فوائد بے شمار ہیں۔

نیند کی اہمیت اور بہتر نیند کے لیے عملی تجاویز

ہم اکثر اچھی خوراک اور ورزش پر تو بہت زور دیتے ہیں، لیکن نیند کی اہمیت کو اکثر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ دماغی صحت کے لیے اچھی اور پرسکون نیند انتہائی ضروری ہے۔ جب ہم سوتے ہیں تو ہمارا دماغ آرام نہیں کرتا بلکہ یہ دن بھر کی معلومات کو منظم کرتا ہے، یادداشت کو مضبوط بناتا ہے اور خود کو اگلے دن کے لیے تیار کرتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں امتحانوں کے دنوں میں کم سوتا تھا تو میری یادداشت اور توجہ دونوں ہی متاثر ہوتی تھیں۔ یہی حال بزرگوں کا بھی ہوتا ہے۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ نیند کے پیٹرن میں تبدیلی آنا ایک عام بات ہے، لیکن اگر نیند کی کمی مسلسل رہے تو یہ دماغی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ صرف جسمانی تھکن کی بات نہیں بلکہ ذہنی تھکن بھی ہے۔ ایک پرسکون نیند آپ کے موڈ کو بہتر بناتی ہے، ذہنی دباؤ کو کم کرتی ہے اور آپ کی علمی کارکردگی کو بڑھاتی ہے۔ تو اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا دماغ پوری صلاحیت کے ساتھ کام کرے تو اچھی اور پرسکون نیند کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں۔

اچھی نیند دماغی صحت کے لیے کیوں ضروری ہے؟

دماغی صحت کے لیے اچھی نیند کی ضرورت کئی وجوہات کی بنا پر ہے۔ سب سے پہلے، جب ہم گہری نیند میں ہوتے ہیں تو ہمارا دماغ ایک قسم کی “صفائی” کا عمل کرتا ہے، جہاں وہ ایسے فضلاتی مواد کو خارج کرتا ہے جو دن بھر کی سرگرمیوں کے دوران جمع ہو جاتے ہیں۔ اگر یہ مواد دماغ میں جمع ہوتے رہیں تو یہ الزائمر جیسی بیماریوں کا باعث بن سکتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ میرے ایک ڈاکٹر دوست نے بتایا تھا کہ نیند کے دوران دماغ کی مرمت کا عمل بھی ہوتا ہے، جہاں خلیوں کی تجدید ہوتی ہے اور نئے کنکشن بنتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر، نیند یادداشت کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ دن بھر جو معلومات ہم حاصل کرتے ہیں، ہمارا دماغ انہیں نیند کے دوران ہی پروسیس کرتا ہے اور انہیں طویل مدتی یادداشت کا حصہ بناتا ہے۔ اگر نیند پوری نہ ہو تو یادداشت کمزور پڑ سکتی ہے۔ تیسرے نمبر پر، اچھی نیند آپ کے موڈ اور جذباتی صحت کے لیے بھی بہت ضروری ہے۔ نیند کی کمی چڑچڑاپن، اداسی اور بے چینی کا باعث بن سکتی ہے۔ تو یہ صرف ایک آرام کا وقفہ نہیں ہے بلکہ یہ دماغ کی مکمل دیکھ بھال کا وقت ہے۔

نیند کے مسائل اور ان کا حل

عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ بہت سے بزرگوں کو نیند کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جیسے نیند نہ آنا (بے خوابی)، بار بار نیند کا ٹوٹنا یا دن میں زیادہ اونگھ آنا۔ میں نے خود اپنے ارد گرد بہت سے بزرگوں کو دیکھا ہے جو اس چیلنج سے دوچار ہیں۔ ان مسائل کا حل ممکن ہے اور اس کے لیے کچھ عملی تجاویز پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے، سونے اور جاگنے کا ایک باقاعدہ وقت مقرر کریں۔ چاہے چھٹی کا دن ہو یا عام دن، اسی وقت پر سونے اور جاگنے کی کوشش کریں۔ اس سے آپ کی باڈی کلاک (circadian rhythm) منظم ہو جاتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میری نانی ہمیشہ ایک مقررہ وقت پر سوتی اور جاگتی تھیں اور وہ کہتی تھیں کہ اس سے ان کی صحت بہت اچھی رہتی ہے۔ دوسرے نمبر پر، سونے سے پہلے کیفین اور الکحل سے پرہیز کریں۔ یہ دونوں چیزیں نیند میں خلل ڈال سکتی ہیں۔ تیسرے نمبر پر، سونے سے پہلے آرام دہ سرگرمیاں کریں، جیسے کتاب پڑھنا، ہلکی موسیقی سننا یا گرم پانی سے غسل کرنا۔ یہ آپ کے دماغ کو سکون فراہم کرتا ہے اور آپ کو اچھی نیند کے لیے تیار کرتا ہے۔ چوتھے نمبر پر، اپنے سونے کے کمرے کو تاریک، ٹھنڈا اور پرسکون رکھیں۔ یہ ایک ایسا ماحول فراہم کرتا ہے جہاں آپ آرام سے سو سکیں۔ اگر نیند کے مسائل بہت زیادہ ہوں تو کسی ڈاکٹر سے مشورہ ضرور کریں۔ یہ چھوٹی چھوٹی تجاویز آپ کی نیند کے معیار کو بہت بہتر بنا سکتی ہیں۔

Advertisement

ذہنی دباؤ کو کم کرنے کی تکنیکیں اور ان کی افادیت

آج کی زندگی میں ذہنی دباؤ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی بھی بچ نہیں سکتا، چاہے وہ جوان ہو یا بزرگ۔ لیکن بزرگوں کے لیے ذہنی دباؤ کے اثرات زیادہ خطرناک ہو سکتے ہیں، کیونکہ یہ ان کی دماغی صحت کو مزید متاثر کر سکتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میرے دادا ابو کسی بات پر پریشان ہوتے تھے تو ان کی یادداشت پر بھی اس کا اثر پڑتا تھا اور وہ چیزیں بھولنے لگتے تھے۔ ذہنی دباؤ ہمارے دماغ کے لیے ایک خاموش قاتل کی طرح ہے جو آہستہ آہستہ اس کی صلاحیتوں کو کمزور کرتا ہے۔ خوش قسمتی سے، آج بہت سی ایسی تکنیکیں دستیاب ہیں جن کے ذریعے ذہنی دباؤ کو مؤثر طریقے سے کم کیا جا سکتا ہے۔ یہ تکنیکیں ہمیں نہ صرف ذہنی سکون فراہم کرتی ہیں بلکہ یہ ہمارے دماغ کو بھی مضبوط بناتی ہیں تاکہ وہ چیلنجز کا بہتر طریقے سے مقابلہ کر سکے۔ میرا ماننا ہے کہ ذہنی دباؤ کا انتظام کرنا ایک مہارت ہے جسے سیکھا جا سکتا ہے اور یہ مہارت ہمارے بزرگوں کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔ تو اگر آپ بھی اپنے دماغ کو پرسکون اور فعال رکھنا چاہتے ہیں تو ان تکنیکوں کو اپنی روزمرہ کی زندگی کا حصہ ضرور بنائیں۔

مراقبہ اور گہری سانس کی مشقیں

مراقبہ اور گہری سانس کی مشقیں ذہنی دباؤ کو کم کرنے کی سب سے مؤثر اور آزمودہ تکنیکوں میں سے ہیں۔ یہ دونوں ہی آپ کے دماغ کو سکون فراہم کرتی ہیں اور اسے موجودہ لمحے پر توجہ مرکوز کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ میرے ایک پڑوسی ان مشقوں کا باقاعدگی سے استعمال کرتے تھے اور وہ کہتے تھے کہ اس سے انہیں ذہنی سکون ملتا ہے اور وہ زیادہ پرجوش محسوس کرتے ہیں۔ مراقبہ میں آپ کو کسی پرسکون جگہ پر بیٹھ کر اپنے خیالات کو بغیر کسی فیصلے کے آنے جانے دینا ہوتا ہے۔ اس سے آپ کا دماغ صاف ہوتا ہے اور آپ کو اندرونی سکون کا احساس ہوتا ہے۔ گہری سانس کی مشقوں میں آپ کو آہستہ آہستہ گہری سانس لینی اور چھوڑنی ہوتی ہے۔ یہ آپ کے اعصابی نظام کو پرسکون کرتا ہے اور ذہنی دباؤ کے ہارمونز کو کم کرتا ہے۔ یہ مشقیں آپ کو دن میں صرف چند منٹ کے لیے کرنی ہوتی ہیں، لیکن ان کے اثرات بہت گہرے ہوتے ہیں۔ آپ اسے صبح اٹھنے کے بعد یا رات کو سونے سے پہلے کر سکتے ہیں۔ یہ ایک قسم کا ‘ذہنی ڈیٹوکس’ ہے جو آپ کے دماغ کو تازگی بخشتا ہے اور اسے نئی توانائی دیتا ہے۔

فطرت کے ساتھ جڑنے کے فوائد

فطرت کے ساتھ جڑنا بھی ذہنی دباؤ کو کم کرنے اور دماغی صحت کو بہتر بنانے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میری دادی ہمیشہ کہتی تھیں کہ صبح کی سیر کرنا اور سرسبز ماحول میں وقت گزارنا ان کے لیے کسی دوا سے کم نہیں ہے۔ جب ہم فطرت کے قریب ہوتے ہیں تو ہمارا دماغ زیادہ پرسکون اور خوش محسوس کرتا ہے۔ آپ کسی پارک میں جا سکتے ہیں، کسی باغیچے میں وقت گزار سکتے ہیں یا صرف اپنے گھر کے گملوں کو ہی دیکھ کر لطف اٹھا سکتے ہیں۔ فطرت کی آوازیں، جیسے پرندوں کا چہچہانا یا ہوا کا سرسراہٹ، ہمارے دماغ کو سکون فراہم کرتی ہیں۔ سائنسی تحقیق بھی اس بات کی تائید کرتی ہے کہ فطرت میں وقت گزارنے سے ذہنی دباؤ، بے چینی اور اداسی میں کمی آتی ہے اور موڈ بہتر ہوتا ہے۔ یہ ہمیں دنیا سے جڑے رہنے کا احساس دلاتا ہے اور ہمیں ایک نئی توانائی دیتا ہے۔ تو اگر آپ ذہنی دباؤ کا شکار ہیں تو فطرت کے قریب وقت گزارنے کی کوشش کریں۔ یہ ایک سادہ لیکن بہت مؤثر طریقہ ہے جو آپ کے دماغ اور روح دونوں کو تازگی بخشتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ چھوٹی چھوٹی عادتیں ہماری زندگی میں بہت بڑی تبدیلیاں لا سکتی ہیں۔

글을마치며

زندگی کے اس سفر میں، جہاں ہم اپنے جسمانی آرام و آسائش پر پوری توجہ دیتے ہیں، دماغی صحت کو اکثر ثانوی حیثیت دی جاتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارا دماغ ہی وہ مرکز ہے جو ہماری ہر سوچ، ہر احساس اور ہر عمل کو کنٹرول کرتا ہے۔ میں نے اپنے ذاتی تجربات اور مشاہدات سے یہ بات سیکھی ہے کہ بڑھتی عمر کے ساتھ دماغی صحت کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ یہ محض بیماریوں سے بچنا نہیں، بلکہ زندگی کے ہر لمحے کو پوری طرح جینے، نئے چیلنجز کا سامنا کرنے اور دنیا کے ساتھ جڑے رہنے کا نام ہے۔ آج ہم نے جن جدید پروگرامز، ڈیجیٹل ٹولز، غذائی حکمت عملیوں، سماجی سرگرمیوں، نیند کی اہمیت اور ذہنی دباؤ کو کم کرنے کی تکنیکوں پر بات کی، یہ سب مل کر ہمارے بزرگوں کو ایک صحت مند، فعال اور خوشگوار زندگی گزارنے میں مدد دیتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ میری یہ کوشش آپ کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگی اور آپ اپنے اور اپنے پیاروں کی دماغی صحت کو بہتر بنانے کے لیے ان تجاویز پر عمل کریں گے۔ یاد رکھیں، ایک صحت مند دماغ ایک صحت مند اور پرجوش زندگی کی بنیاد ہے۔ آئیے، اپنے دماغ کو اس طرح سنبھالیں جیسے یہ ہماری سب سے قیمتی دولت ہو۔

Advertisement

알아두면 쓸모 있는 정보

1. دماغی ورزشوں کی اہمیت: اپنے دماغ کو ہمیشہ فعال رکھیں! کراس ورڈ پزل، سڈوکو، شطرنج جیسے کھیل کھیلیں، یا کوئی نئی زبان سیکھنے کی کوشش کریں۔ یہ سرگرمیاں آپ کے دماغ کے مختلف حصوں کو متحرک کرتی ہیں، یادداشت کو تیز کرتی ہیں اور مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت کو بڑھاتی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بزرگ دوست نے نئی زبان سیکھنا شروع کی تو ان کی نہ صرف یادداشت بہتر ہوئی بلکہ ان کے چہرے پر ایک نئی چمک بھی آ گئی تھی۔ یہ چھوٹی چھوٹی ذہنی مشقیں آپ کے دماغ کو تروتازہ رکھتی ہیں اور اسے زنگ آلود ہونے سے بچاتی ہیں۔ تو آج ہی اپنے پسندیدہ ذہنی کھیل کا انتخاب کریں اور اسے اپنی روزمرہ کی روٹین کا حصہ بنائیں۔

2. صحت بخش خوراک کا استعمال: آپ جو کھاتے ہیں، اس کا سیدھا اثر آپ کے دماغ پر ہوتا ہے۔ اومیگا تھری فیٹی ایسڈز (مچھلی، اخروٹ)، اینٹی آکسیڈنٹس (بیریز، ہری سبزیاں) اور ثابت اناج سے بھرپور خوراک کو اپنی پلیٹ کا حصہ بنائیں۔ میں نے خود محسوس کیا ہے کہ جب میں اپنی خوراک پر توجہ دیتا ہوں تو میری ذہنی کارکردگی بہتر ہوتی ہے اور میں زیادہ چاک و چوبند محسوس کرتا ہوں۔ اس کے برعکس، پروسیسڈ فوڈز اور زیادہ چینی والی چیزوں سے پرہیز کریں جو دماغی سوزش کا باعث بن سکتی ہیں۔ اپنی غذا میں رنگین پھلوں اور سبزیوں کو شامل کریں تاکہ آپ کا دماغ تمام ضروری وٹامنز اور معدنیات حاصل کر سکے۔

3. سماجی تعلقات کو فروغ دیں: انسان ایک سماجی مخلوق ہے اور سماجی میل جول دماغی صحت کے لیے بہت ضروری ہے۔ اپنے خاندان اور دوستوں کے ساتھ وقت گزاریں، کمیونٹی سینٹرز میں جائیں یا کسی کلب کا حصہ بنیں۔ مجھے یقین ہے کہ جب ہم اپنے پیاروں کے ساتھ ہنستے بولتے ہیں تو ہمارا دماغ بھی خوش ہوتا ہے اور ذہنی دباؤ کم ہوتا ہے۔ تنہائی دماغی کمزوری کا باعث بن سکتی ہے، اس لیے لوگوں سے جڑے رہیں، نئے دوست بنائیں اور اپنے تجربات ایک دوسرے سے بانٹیں۔ یہ آپ کو نہ صرف ذہنی طور پر بلکہ جذباتی طور پر بھی مضبوط کرے گا اور آپ کی زندگی میں ایک مثبت توانائی لے کر آئے گا۔

4. مناسب اور پرسکون نیند: اچھی اور گہری نیند دماغ کی کارکردگی کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ سونے کے لیے ایک باقاعدہ وقت مقرر کریں اور اس پر سختی سے عمل کریں۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں رات کو اچھی نیند لیتا ہوں تو اگلے دن میں زیادہ فوکسڈ اور توانا محسوس کرتا ہوں۔ سونے سے پہلے کیفین اور الکحل سے پرہیز کریں، اور اپنے سونے کے کمرے کو تاریک اور پرسکون بنائیں۔ گہری نیند کے دوران ہمارا دماغ دن بھر کی معلومات کو منظم کرتا ہے اور خود کو اگلے دن کے لیے تیار کرتا ہے۔ یہ ایک قسم کی ‘ذہنی مرمت’ کا عمل ہے جسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

5. ذہنی دباؤ کا مؤثر انتظام: ذہنی دباؤ دماغی صحت کا ایک خاموش دشمن ہے۔ مراقبہ، گہری سانس کی مشقیں، اور فطرت میں وقت گزارنا ذہنی دباؤ کو کم کرنے کے بہترین طریقے ہیں۔ میرے ایک دوست نے بتایا کہ روزانہ چند منٹ کی گہری سانس کی مشقوں سے انہیں بہت سکون ملتا ہے اور وہ زیادہ پرسکون رہتے ہیں۔ اپنی پسندیدہ سرگرمیوں میں حصہ لیں، جیسے کوئی کتاب پڑھنا، موسیقی سننا یا باغبانی کرنا۔ یہ تمام چیزیں آپ کے دماغ کو سکون فراہم کرتی ہیں اور اسے ذہنی دباؤ کے منفی اثرات سے بچاتی ہیں۔ یاد رکھیں، ایک پرسکون دماغ ہی صحیح فیصلے کر سکتا ہے اور زندگی کے چیلنجز کا سامنا کر سکتا ہے۔

Advertisement

중요 사항 정리

دماغی صحت زندگی کے ہر مرحلے میں، خاص طور پر بڑھتی عمر میں، بے حد ضروری ہے۔ اسے نظر انداز کرنا کسی بھی صورت میں ٹھیک نہیں۔ جدید پروگرامز اور تکنیکیں ہمارے دماغ کو فعال رکھنے اور علمی صلاحیتوں کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہو رہی ہیں۔ میں نے خود یہ مشاہدہ کیا ہے کہ جو بزرگ ذہنی اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں، وہ زیادہ خوش اور پرجوش زندگی گزارتے ہیں۔ صحت بخش خوراک، مناسب نیند، اور ذہنی دباؤ کا مؤثر انتظام دماغی صحت کے لیے بنیادی ستون ہیں۔ مجھے پختہ یقین ہے کہ ان تجاویز پر عمل کرکے آپ نہ صرف اپنی یادداشت کو تیز کر سکتے ہیں بلکہ اپنی مجموعی زندگی کے معیار کو بھی بہتر بنا سکتے ہیں۔ آئیے، ایک صحت مند دماغ کے ساتھ ایک بھرپور زندگی کا لطف اٹھائیں۔ یہ چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں آپ کی زندگی میں بہت بڑا فرق لا سکتی ہیں۔

اکثر پوچھے گئے سوالات (FAQ) 📖

س: یہ جدید دماغی صحت کے پروگرامز دراصل کیا ہیں اور ان میں کیا شامل ہوتا ہے؟

ج: دیکھو، جب ہم ‘دماغی صحت کے جدید پروگرامز’ کی بات کرتے ہیں، تو یہ صرف کراس ورڈ پزل حل کرنے یا کوئی کتاب پڑھنے تک محدود نہیں ہیں۔ یہ دراصل دماغ کو مختلف طریقوں سے چیلنج کرنے اور اسے مصروف رکھنے کے لیے سائنس پر مبنی طریقوں کا ایک مجموعہ ہیں۔ میرے تجربے کے مطابق، ان میں کئی چیزیں شامل ہوتی ہیں جو مل کر کام کرتی ہیں:
سب سے پہلے، ‘کگنیٹو ٹریننگ’ (Cognitive Training) ہوتی ہے، جس میں خاص قسم کی گیمز اور مشقیں شامل ہوتی ہیں جو یادداشت، توجہ اور مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت کو بہتر بناتی ہیں۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ جب بزرگ ان گیمز کو کھیلتے ہیں، تو ان کے چہرے پر ایک عجیب سی چمک آتی ہے اور وہ بہت مصروف محسوس کرتے ہیں۔ پھر ‘ذہن سازی’ (Mindfulness) اور ‘میڈیٹیشن’ جیسی تکنیکیں بھی شامل ہوتی ہیں جو دماغ کو پرسکون رکھنے اور ذہنی دباؤ کو کم کرنے میں مدد کرتی ہیں۔ ایمانداری سے کہوں تو، میرے ایک رشتہ دار نے جب یہ شروع کیا تو ان کی نیند کا مسئلہ کافی بہتر ہو گیا۔ اس کے علاوہ، جسمانی سرگرمیوں کو بھی دماغی صحت کا حصہ بنایا جاتا ہے، کیونکہ ایک صحت مند جسم میں ہی صحت مند دماغ ہوتا ہے۔ ہلکی پھلکی واک، یوگا یا کوئی بھی ایسی ورزش جو بزرگ آرام سے کر سکیں، شامل کی جاتی ہے۔ اور ہاں، سماجی روابط بھی بہت اہم ہیں؛ دوستوں اور خاندان کے ساتھ وقت گزارنا، گفتگو کرنا بھی دماغ کو فعال رکھتا ہے۔ یہ سب مل کر دماغ کو ایک مکمل پیکج فراہم کرتے ہیں جو اسے جوان اور چست رکھتا ہے۔

س: بزرگوں کے لیے یہ پروگرامز روایتی طریقوں سے کیسے مختلف ہیں اور ان کے کیا خاص فوائد ہیں؟

ج: یہ ایک بہت اہم سوال ہے! روایتی طور پر، ہم صرف یہی سوچتے تھے کہ بزرگوں کو بس آرام کروائیں یا انہیں مصروف رکھنے کے لیے کچھ عام کام دے دیں، جیسے اخبار پڑھنا یا ٹی وی دیکھنا۔ لیکن یہ جدید پروگرامز بالکل مختلف ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ یہ سائنسی بنیادوں پر تیار کیے گئے ہیں اور ہر فرد کی ضرورت کے مطابق انہیں ڈھالا جاتا ہے۔ روایتی طریقے اکثر ایک ہی حجم سب کے لیے کے اصول پر ہوتے تھے، جبکہ یہ پروگرامز ہر شخص کی انفرادی صلاحیتوں اور چیلنجز کو دیکھتے ہوئے ڈیزائن کیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر کسی کو یادداشت کا زیادہ مسئلہ ہے تو اس کے لیے خاص مشقیں ہوں گی، اور اگر کسی کو توجہ کا مسئلہ ہے تو اس کے لیے مختلف مشقیں ہوں گی۔
فوائد کی بات کریں تو، یہ حیران کن ہیں۔ میں نے ایسے کئی بزرگوں کو دیکھا ہے جن کی یادداشت میں واضح بہتری آئی، وہ چھوٹی چھوٹی چیزیں بھولنا کم کر چکے تھے۔ ان کی توجہ کا دورانیہ بڑھ گیا اور وہ گفتگو میں زیادہ فعال ہو گئے۔ سب سے بڑھ کر، ان کے مزاج میں خوشگوار تبدیلی آئی؛ وہ زیادہ پر اعتماد اور ہشاش بشاش نظر آنے لگے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بزرگ خاتون جو پہلے بہت خاموش رہتی تھیں، ان پروگرامز میں حصہ لینے کے بعد خود سے پہل کر کے باتیں کرنے لگیں اور اپنی کہانیاں سنانے لگیں۔ یہ پروگرامز نہ صرف علمی صلاحیتوں کو بہتر بناتے ہیں بلکہ ذہنی سکون اور مجموعی خوشی میں بھی اضافہ کرتے ہیں، جو ان کی زندگی کے آخری حصے کو واقعی سنہری بنا دیتا ہے۔

س: ان پروگرامز کو شروع کرنے کے لیے کیا عملی اقدامات کیے جا سکتے ہیں اور ہم اپنے پیاروں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟

ج: کسی بھی نئی چیز کو شروع کرنے میں تھوڑی سی منصوبہ بندی تو لگتی ہے، لیکن میرے تجربے میں یہ بہت آسان ہے۔ سب سے پہلے اور سب سے اہم قدم یہ ہے کہ اپنے پیارے بزرگ کے ڈاکٹر سے مشورہ کریں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ کسی بھی نئے پروگرام کے لیے جسمانی اور ذہنی طور پر تیار ہیں۔ ڈاکٹر کی رائے بہت ضروری ہے۔
اس کے بعد، آپ اپنے علاقے میں ایسے مراکز یا ادارے تلاش کر سکتے ہیں جو بزرگوں کے لیے دماغی صحت کے پروگرام پیش کرتے ہیں۔ اگر براہ راست کوئی مرکز دستیاب نہ ہو تو آج کل بہت ساری آن لائن ایپلیکیشنز اور پلیٹ فارمز بھی موجود ہیں جو اس قسم کی مشقیں اور گیمز فراہم کرتے ہیں۔ میں نے کئی لوگوں کو دیکھا ہے جو اپنے موبائل پر ہی ایسی گیمز کھیل کر فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ خاندان کے افراد ان کی حوصلہ افزائی کریں اور ان کے ساتھ مل کر ان سرگرمیوں میں حصہ لیں۔ انہیں اکیلا محسوس نہ ہونے دیں۔ جب بچے یا پوتے پوتی ان کے ساتھ مل کر کوئی گیم کھیلتے ہیں تو بزرگوں کو بہت خوشی ہوتی ہے اور وہ زیادہ لگن سے کام کرتے ہیں۔ ان کے لیے اسے ایک تفریحی سرگرمی بنائیں۔ چھوٹی چھوٹی کامیابیوں پر ان کی تعریف کریں، کیونکہ یہ ان کا حوصلہ بڑھاتی ہے۔ یاد رکھیں، مستقل مزاجی بہت ضروری ہے۔ آج ہی سے ایک چھوٹا قدم اٹھائیں اور دیکھیں کہ کیسے آپ کے پیارے بزرگوں کی زندگی میں ایک نئی روشنی آتی ہے!

Advertisement