بچوں کی صحت کا راز: جسمانی سرگرمیوں کے اہم ترین نکات جو آپ کو معلوم نہیں

webmaster

A captivating split image featuring two young children. On the left, a child sits indoors, slightly hunched over a tablet or phone, wearing modest home clothing, surrounded by a modern, cozy living room. On the right, another child joyfully runs and jumps in a sunny, vibrant community park, dressed in comfortable, modest activewear. The scene emphasizes the contrast between sedentary screen time and energetic outdoor play. High-quality professional photography, natural lighting, sharp focus, vivid colors, perfect anatomy, correct proportions, natural pose, well-formed hands, proper finger count, natural body proportions. fully clothed, appropriate attire, safe for work, appropriate content, family-friendly.

آج کے تیز رفتار ڈیجیٹل دور میں جہاں بچوں کا زیادہ تر وقت اسکرین کے سامنے گزرتا ہے، یہ دیکھ کر دل دکھتا ہے کہ جسمانی سرگرمیوں کا رجحان کتنا کم ہو گیا ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ ہمارے محلے میں بچے پہلے کی طرح گلیوں میں کھیلتے نظر نہیں آتے۔ یہ صرف ایک مشاہدہ نہیں، بلکہ ایک بڑھتا ہوا عالمی مسئلہ ہے جس سے نہ صرف جسمانی صحت بلکہ بچوں کی ذہنی اور جذباتی نشوونما بھی متاثر ہو رہی ہے۔ ڈاکٹرز اور ماہرین نفسیات متفق ہیں کہ بچپن میں کی جانے والی جسمانی سرگرمیاں ایک مضبوط مستقبل کی بنیاد رکھتی ہیں۔ میرے تجربے کے مطابق، جو بچے باقاعدگی سے کھیلتے کودتے ہیں وہ زیادہ ہشاش بشاش اور ذہنی طور پر چست رہتے ہیں۔ مستقبل میں ہمیں شاید ورچوئل رئیلٹی کے ذریعے بچوں کو حرکت میں لانے کے نئے طریقے ڈھونڈنے پڑیں گے، یا پھر کمیونٹی کی سطح پر ایسے پارکس اور میدان بنانے ہوں گے جہاں وہ کھل کر کھیل سکیں۔ اس بدلتے ہوئے منظر نامے میں، بچوں کو کھیل کود کی اہمیت سمجھانا اور انہیں اس کے لیے مواقع فراہم کرنا والدین اور معاشرے کی اولین ذمہ داری ہے۔ اس سلسلے میں، نیچے دیے گئے مضمون میں مزید معلومات فراہم کی گئی ہیں۔

بچوں کی بڑھتی ہوئی اسکرین ٹائم: صحت پر گہرے اثرات

بچوں - 이미지 1

آج کل ہر گھر میں ایک عام منظر ہے کہ بچے گھنٹوں موبائل فون، ٹیبلٹ یا کمپیوٹر اسکرین سے چپکے رہتے ہیں۔ جب میں اپنے بچپن کو یاد کرتا ہوں، تو شام ہوتے ہی ہم سب گلی میں نکل جاتے، کرکٹ کھیلتے، لکڑ چھپاتے، اور کبھی کبھار تو کچے آم توڑنے کی جستجو میں دور نکل جاتے۔ وہ دن تھے جب ہماری جسمانی سرگرمیاں قدرتی طور پر ہماری زندگی کا حصہ تھیں۔ آج اس کے برعکس، میں نے کئی والدین کو یہ کہتے سنا ہے کہ ان کے بچے کھانا بھی اسکرین دیکھتے ہوئے کھاتے ہیں۔ یہ صرف ایک چھوٹی سی عادت نہیں، بلکہ یہ ایک بڑے مسئلے کی نشاندہی کرتی ہے جو ہمارے بچوں کی جسمانی صحت کو اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے۔ ایک ماہر نفسیات دوست نے مجھے بتایا کہ اسکرین کے سامنے زیادہ وقت گزارنے والے بچوں میں نہ صرف نظر کی کمزوری، بلکہ کمر درد، کندھوں میں اکڑن اور موٹاپے جیسے مسائل بھی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ یہ مسائل صرف فوری نوعیت کے نہیں، بلکہ ان کے طویل مدتی اثرات بھی ہیں جو بچوں کے بڑے ہونے پر بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ مجھے یاد ہے کہ میری بھانجی، جس کی عمر صرف سات سال ہے، وہ دن بھر کارٹون دیکھتی رہتی ہے اور اس کی وجہ سے اسے رات کو نیند آنے میں بھی مشکل ہوتی ہے۔ یہ صورتحال واقعی دل دکھانے والی ہے، کیونکہ بچپن جسمانی طور پر فعال رہنے اور مضبوط ہڈیوں، مضبوط پٹھوں کی بنیاد رکھنے کا وقت ہوتا ہے۔ اگر اس عمر میں جسمانی سرگرمیاں نہ ہوں تو یہ بنیاد ہی کمزور رہ جاتی ہے، جس کا نتیجہ آگے چل کر مختلف بیماریوں کی صورت میں نکلتا ہے۔

1. اسکرین ٹائم کا جسمانی صحت پر براہ راست اثر

اسکرین ٹائم کا بڑھنا بچوں کے جسمانی صحت پر براہ راست اور منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ بیٹھنے کی عادتیں بچوں کو سست بنا دیتی ہیں، جو کہ موٹاپے کا ایک اہم سبب ہے۔ میری چھوٹی بہن کا بیٹا، جو پہلے بہت چست تھا، اب گیمز کی وجہ سے وزن بڑھا چکا ہے اور سیڑھیاں چڑھنے میں بھی ہانپنے لگتا ہے۔ ڈاکٹرز کے مطابق، جو بچے زیادہ دیر تک بیٹھے رہتے ہیں، ان کا میٹابولزم سست ہو جاتا ہے اور انہیں ذیابیطس اور دل کی بیماریوں کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ یہ سب ایک چین ری ایکشن کی طرح ہے جہاں ایک غلط عادت دوسری کئی بیماریوں کو دعوت دیتی ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ جب بچے سکرین پر مسلسل جھکے رہتے ہیں تو ان کی گردن اور کمر کا پوسچر خراب ہو جاتا ہے، جس سے مستقبل میں دائمی درد کی شکایات پیدا ہو سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ، آنکھوں پر پڑنے والا مسلسل دباؤ بھی بینائی کو متاثر کرتا ہے، اور بہت سے بچے چھوٹی عمر میں ہی عینک لگانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

2. نیند کے پیٹرن میں خرابی اور توانائی کی کمی

اسکرین سے نکلنے والی نیلی روشنی بچوں کی نیند کو بُری طرح متاثر کرتی ہے۔ رات گئے تک موبائل فون استعمال کرنے سے ان کے جسم میں میلاٹونن نامی ہارمون کی پیداوار کم ہو جاتی ہے، جو نیند کو کنٹرول کرتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچے رات بھر بے چین رہتے ہیں، یا پھر انہیں سونے میں کافی وقت لگتا ہے۔ میرے ایک پڑوسی کا بیٹا ہمیشہ صبح اٹھ کر سست اور بدمزاج رہتا ہے کیونکہ وہ رات بھر فون پر گیمز کھیلتا ہے۔ نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے ان کی دن بھر کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے، وہ اسکول میں توجہ نہیں دے پاتے، اور ان میں توانائی کی کمی صاف نظر آتی ہے۔ یہ صرف تھکاوٹ نہیں، بلکہ اس سے ان کے موڈ اور برتاؤ پر بھی منفی اثرات پڑتے ہیں، اور وہ چڑچڑے ہو جاتے ہیں۔

کھیل کود کا جسمانی نشوونما میں کردار: ہڈیوں سے دل تک

کھیل کود صرف تفریح نہیں، بلکہ یہ بچوں کی مکمل جسمانی نشوونما کا ایک ناگزیر حصہ ہے۔ بچپن میں کی جانے والی جسمانی سرگرمیاں بچوں کے مستقبل کی صحت کی بنیاد رکھتی ہیں۔ مجھے یاد ہے جب میں چھوٹا تھا تو ہر وقت بھاگ دوڑ میں لگا رہتا تھا، کبھی کرکٹ، کبھی فٹ بال تو کبھی چھپن چھپائی۔ اس وقت ہمیں یہ احساس نہیں تھا کہ یہ سب کھیل ہماری ہڈیوں کو مضبوط بنا رہے ہیں، پٹھوں کو طاقت دے رہے ہیں اور ہمارے دل کو صحت مند رکھ رہے ہیں۔ آج جب میں اپنے جوان ہوتے ہوئے بچوں کو دیکھتا ہوں، تو میں انہیں بھی یہی سکھاتا ہوں کہ کھیل کود سے کوئی سمجھوتہ نہ کریں۔ جسمانی سرگرمیوں سے ہڈیاں گھنی اور مضبوط ہوتی ہیں، اور یہ آسٹیوپوروسس جیسی بیماریوں سے بچاتی ہیں جو بڑھاپے میں پیش آتی ہیں۔ پٹھوں کی مضبوطی بھی کھیل کود سے حاصل ہوتی ہے، جو بچوں کو زیادہ طاقتور بناتی ہے اور انہیں چوٹوں سے بچاتی ہے۔ اس کے علاوہ، جو بچے باقاعدگی سے کھیلتے کودتے ہیں، ان کا مدافعتی نظام (immunity system) بھی مضبوط ہوتا ہے، جس سے وہ بیماریوں سے زیادہ بہتر طریقے سے لڑ سکتے ہیں۔ میرے بھائی کا چھوٹا بیٹا جو پہلے اکثر بیمار رہتا تھا، اب جب سے اس نے باقاعدگی سے سائیکل چلانا شروع کیا ہے، اس کی صحت میں حیرت انگیز بہتری آئی ہے۔

1. ہڈیوں اور پٹھوں کی مضبوطی

جسمانی سرگرمیاں جیسے دوڑنا، کودنا، چڑھنا اور بال پھینکنا بچوں کی ہڈیوں اور پٹھوں کی نشوونما کے لیے ضروری ہیں۔ جب بچے ان سرگرمیوں میں مشغول ہوتے ہیں، تو ان کی ہڈیوں پر دباؤ پڑتا ہے، جس سے ان میں کیلشیم کا ذخیرہ بہتر ہوتا ہے اور ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں۔ یہ بالکل ایک عمارت کی بنیاد رکھنے جیسا ہے؛ اگر بنیاد مضبوط ہوگی تو عمارت پائیدار بنے گی۔ اسی طرح، پٹھے بھی استعمال سے مضبوط ہوتے ہیں اور بچوں کی مجموعی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے۔

  • بڑھتی ہوئی ہڈیوں کی کثافت
  • پٹھوں کی طاقت اور برداشت میں اضافہ
  • جسمانی توازن اور ہم آہنگی میں بہتری

2. دل کی صحت اور وزن کا توازن

باقاعدہ جسمانی سرگرمیاں بچوں کے دل کو صحت مند رکھتی ہیں اور خون کے بہاؤ کو بہتر بناتی ہیں۔ دوڑنا، سائیکل چلانا، اور تیراکی جیسے ایروبک (aerobic) کھیل دل کی دھڑکن کو تیز کرتے ہیں، جس سے دل کا پمپنگ سسٹم بہتر ہوتا ہے اور جسم کے ہر حصے تک آکسیجن کی فراہمی یقینی بنتی ہے۔ اس کے علاوہ، جسمانی سرگرمیاں بچوں کو صحت مند وزن برقرار رکھنے میں مدد دیتی ہیں، جو کہ موٹاپے اور اس سے منسلک بیماریوں جیسے ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر سے بچاتا ہے۔

ایک چھوٹی سی معلومات کو جدول میں دیکھ کر سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ کس طرح فعال بچے غیر فعال بچوں سے مختلف ہوتے ہیں:

پہلو فعال بچے (Active Children) غیر فعال بچے (Inactive Children)
جسمانی صحت مضبوط ہڈیاں، صحت مند دل، بہتر مدافعت، نارمل وزن کمزور ہڈیاں، دل کی بیماریوں کا خطرہ، کمزور مدافعت، موٹاپا
ذہنی صحت بہتر توجہ، کم تناؤ، خوش مزاجی، بہتر تعلیمی کارکردگی توجہ میں کمی، زیادہ تناؤ، چڑچڑاپن، تعلیمی مسائل
نیند گہری اور پرسکون نیند نیند میں خلل، بے خوابی
معاشرتی مہارتیں بہتر باہمی تعاون، قائدانہ صلاحیتیں، دوستی اکیلے پن کا احساس، معاشرتی انفرادیت

ذہنی چستی اور جذباتی استحکام: کھیل میدان کے سبق

مجھے ذاتی طور پر یہ بات ہمیشہ سے حیران کرتی رہی ہے کہ کھیل کود صرف جسم کو ہی نہیں، بلکہ دماغ کو بھی کیسے تیز کرتا ہے۔ جب بچے میدان میں ہوتے ہیں، تو وہ صرف جسمانی مشقت نہیں کر رہے ہوتے، بلکہ ان کا دماغ بھی مسلسل کام کر رہا ہوتا ہے۔ فیصلہ سازی، حکمت عملی، مسائل حل کرنے کی صلاحیت، یہ سب کچھ کھیل کے دوران قدرتی طور پر سیکھنے کو ملتا ہے۔ جیسے کرکٹ میں فیلڈنگ لگاتے وقت یہ سوچنا کہ گیند کہاں جائے گی، یا فٹ بال میں پاس دیتے وقت اپنے ساتھی کی پوزیشن کا اندازہ لگانا، یہ سب ذہنی مشقیں ہیں۔ یہ وہ “اسکول” ہے جہاں کتابیں نہیں، بلکہ تجربہ سکھاتا ہے۔ اس کے علاوہ، کھیل کود بچوں کو جذباتی طور پر بھی مضبوط بناتا ہے۔ جیت کا جشن منانا، ہار کو قبول کرنا، مایوسی سے نکلنا اور دوبارہ کوشش کرنا، یہ سب وہ قیمتی سبق ہیں جو زندگی میں آگے چل کر بڑے کام آتے ہیں۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ وہ بچے جو کھیل کود میں شامل ہوتے ہیں، ان میں تناؤ کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے اور وہ اپنی پریشانیوں کو بہتر طریقے سے سنبھال سکتے ہیں۔ کھیل سے ملنے والا اعتماد انہیں ہر چیلنج کا مقابلہ کرنے کی ہمت دیتا ہے۔

1. فیصلہ سازی اور مسئلہ حل کرنے کی مہارتیں

کھیل بچوں کو فوراً فیصلے کرنے اور مسائل کو حل کرنے کی تربیت دیتے ہیں۔ فٹ بال کے میدان میں جب گیند آپ کے پاس آتی ہے تو آپ کو سیکنڈز کے اندر فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ اسے کس کو پاس دینا ہے، کب شوٹ کرنا ہے، یا دفاع کیسے کرنا ہے۔ یہ تمام فیصلے بچوں کے دماغ کو متحرک کرتے ہیں اور انہیں تیزی سے سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ جو بچے کھیلوں میں زیادہ حصہ لیتے ہیں، وہ کلاس روم میں بھی بہتر فیصلے کرتے ہیں اور مشکل سوالات کو زیادہ آسانی سے حل کر پاتے ہیں۔ یہ مہارتیں انہیں نہ صرف اسکول میں بلکہ مستقبل کی زندگی کے ہر شعبے میں فائدہ دیتی ہیں۔

2. تناؤ میں کمی اور جذباتی ذہانت

جسمانی سرگرمیاں تناؤ کو کم کرنے کا ایک قدرتی ذریعہ ہیں۔ جب بچے کھیلتے ہیں، تو ان کے جسم میں “اینڈورفنز” نامی ہارمونز خارج ہوتے ہیں جو خوشی اور فلاح کا احساس دلاتے ہیں۔ اس سے بچوں کا موڈ بہتر ہوتا ہے اور وہ خوش رہتے ہیں۔ کھیل بچوں کو اپنی مایوسی، غصے اور خوف کو صحت مند طریقے سے نکالنے کا موقع بھی دیتے ہیں۔ ہار جیت کے تجربات انہیں جذباتی طور پر مضبوط بناتے ہیں اور انہیں یہ سکھاتے ہیں کہ زندگی میں ہمیشہ سب کچھ آپ کی مرضی کے مطابق نہیں ہوتا۔ میرے ایک دوست نے بتایا کہ اس کا بیٹا جو پہلے بہت شرمیلا تھا، جب سے اس نے باسکٹ بال کھیلنا شروع کیا ہے، اس میں خود اعتمادی اور جذباتی ذہانت میں بہت بہتری آئی ہے۔ وہ اپنی ٹیم کے ساتھیوں کے ساتھ بہتر طریقے سے بات چیت کرتا ہے اور شکست کو بھی زیادہ مثبت انداز میں دیکھنا سیکھ گیا ہے۔

والدین کی ذمہ داری: بچوں کو فعال رکھنے کے عملی طریقے

ایک والدین کے طور پر، میں یہ بات اچھی طرح سمجھتا ہوں کہ آج کل کے مصروف شیڈول میں بچوں کو کھیل کود کے لیے وقت نکالنا کتنا مشکل ہو سکتا ہے۔ لیکن میرا ماننا ہے کہ یہ ناممکن نہیں ہے۔ مجھے یاد ہے جب میرے بیٹے نے فٹ بال کھیلنے کی ضد کی تو میں نے شروع میں سوچا کہ کیسے کروں گا؟ لیکن پھر میں نے اپنی صبح کی سیر کو اس کے ساتھ فٹ بال کھیلنے کے وقت میں بدل دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نہ صرف وہ خوش ہوا بلکہ میں نے بھی محسوس کیا کہ اس کے ساتھ کی جانے والی یہ سرگرمی میری اپنی صحت کے لیے بھی بہترین ہے۔ والدین کو یہ سمجھنا ہوگا کہ بچوں کو صرف ڈانٹنے یا سمجھانے سے بات نہیں بنے گی، بلکہ انہیں خود مثال بننا ہوگا۔ اگر آپ خود فعال ہوں گے، تو بچے بھی آپ کو دیکھ کر فعال ہونے کی ترغیب پائیں گے۔ انہیں صرف اسکرین سے دور کرنا کافی نہیں، بلکہ انہیں کوئی مثبت متبادل دینا ضروری ہے۔ اپنے علاقے میں موجود پارکس، کھیل کے میدانوں یا کمیونٹی سینٹرز کو تلاش کریں جہاں بچے محفوظ ماحول میں کھیل سکیں۔ چھٹیوں میں انہیں سیر پر لے جائیں، کسی پہاڑی پر ہائیکنگ کریں یا ساحل پر دوڑ لگائیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے اقدامات نہ صرف بچوں کو جسمانی طور پر فعال رکھیں گے بلکہ خاندانی تعلقات کو بھی مضبوط کریں گے۔

1. رول ماڈل بنیں اور مشترکہ سرگرمیاں اپنائیں

بچے وہی کرتے ہیں جو وہ دیکھتے ہیں۔ اگر والدین خود دن بھر صوفے پر بیٹھے رہیں گے اور ٹی وی دیکھیں گے، تو یہ امید رکھنا کہ بچے باہر جا کر کھیلیں گے، بے معنی ہے۔ آپ کو ان کے لیے ایک رول ماڈل بننا ہوگا۔ صبح کی سیر، شام کی چہل قدمی، یا گھر کے کاموں میں جسمانی مشقت کو شامل کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ، بچوں کے ساتھ مل کر ایسی سرگرمیاں کریں جو سب کے لیے دلچسپ ہوں۔ میرے گھر میں شام کو ایک آدھ گھنٹہ سائیکل چلانے کا رواج ہے، اور یہ ہم سب کے لیے ایک فیملی ٹائم بن گیا ہے۔

  1. اپنے بچوں کے ساتھ سائیکل چلائیں یا چہل قدمی کریں۔
  2. ہفتہ وار بنیادوں پر فیملی اسپورٹس کا اہتمام کریں۔
  3. ان کے پسندیدہ کھیل میں حصہ لیں، چاہے وہ آپ کے لیے نیا ہی کیوں نہ ہو۔

2. مناسب ماحول اور ترغیب فراہم کریں

بچوں کو کھیلنے کے لیے ایک محفوظ اور ترغیب دینے والا ماحول فراہم کرنا ضروری ہے۔ یہ صرف کھیل کے میدان تک محدود نہیں، بلکہ گھر کے اندر بھی ایسی جگہ ہونی چاہیے جہاں وہ کھل کر حرکت کر سکیں۔ انہیں کھیلنے کے لیے مناسب لباس اور سامان فراہم کریں۔ سب سے اہم بات، انہیں کھیلنے کی ترغیب دیں اور ان کی کوششوں کی تعریف کریں۔ ایک چھوٹی سی تعریف ان کے اعتماد کو بڑھا سکتی ہے اور انہیں مزید فعال رہنے پر مائل کر سکتی ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ جب میں اپنے بیٹے کی اچھی کارکردگی پر اسے سراہتا ہوں، تو اس کا حوصلہ اور بڑھ جاتا ہے اور وہ اگلی بار اور بہتر کھیلنے کی کوشش کرتا ہے۔

  1. گھر کے قریب کھیل کے میدانوں یا پارکس کا انتخاب کریں۔
  2. انہیں اپنی پسند کا کھیل چننے کی آزادی دیں۔
  3. کھیل کے بعد انہیں تھوڑا سا انعام یا حوصلہ افزائی دیں۔

کمیونٹی کا ساتھ: صحت مند ماحول کی تشکیل

بچوں کی جسمانی صحت صرف والدین کی ذمہ داری نہیں، بلکہ اس میں پورے معاشرے اور کمیونٹی کا کردار انتہائی اہم ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں چھوٹا تھا تو ہمارے محلے میں ایک چھوٹا سا میدان تھا جہاں ہر شام بچے جمع ہوتے تھے۔ وہاں بڑے بھی ان کی نگرانی کرتے تھے اور کبھی کبھار تو خود بھی کھیل میں شامل ہو جاتے تھے۔ یہ ایک کمیونٹی کی کوشش تھی جو بچوں کو ایک صحت مند ماحول فراہم کر رہی تھی۔ آج بھی اس قسم کے اقدامات کی شدید ضرورت ہے۔ اگر ہمارے پاس محفوظ کھیل کے میدان، کمیونٹی سنٹرز اور ایسے پروگرام ہوں جو بچوں کو جسمانی سرگرمیوں کی طرف راغب کریں، تو ہم ایک بڑی تبدیلی لا سکتے ہیں۔ مقامی حکومتوں اور تعلیمی اداروں کو بھی اس سلسلے میں فعال کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ ہر بچے کو کھیل کود کے مساوی مواقع میسر آئیں۔ یہ صرف ایک صحت مند نسل کی تعمیر نہیں، بلکہ ایک مربوط اور فعال معاشرے کی بنیاد بھی ہے۔ جب کمیونٹی بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے اکٹھی ہوتی ہے، تو نتائج حیران کن ہوتے ہیں۔

1. مقامی پارکس اور کھیل کے میدانوں کی اہمیت

مقامی پارکس اور کھیل کے میدان بچوں کے لیے آکسیجن کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی موجودگی بچوں کو گھر سے باہر نکل کر کھیلنے کا موقع فراہم کرتی ہے اور انہیں فطرت سے قریب لاتی ہے۔ لیکن صرف موجودگی ہی کافی نہیں، ان کا محفوظ اور صاف ستھرا ہونا بھی ضروری ہے۔ میں نے کئی ایسے پارکس دیکھے ہیں جو خستہ حال ہیں اور وہاں بچے کھیلنے سے ڈرتے ہیں۔ کمیونٹی کو چاہیے کہ وہ مقامی حکام پر دباؤ ڈالے کہ وہ ان جگہوں کو بہتر بنائیں اور انہیں بچوں کے لیے زیادہ پرکشش بنائیں۔ ایک اچھے پارک میں نہ صرف کھیل کا سامان ہو بلکہ وہاں سبزہ اور روشنی کا بھی مناسب انتظام ہو۔

2. اسکولوں اور تعلیمی اداروں کا کردار

اسکول بچوں کی زندگی کا ایک بڑا حصہ ہیں۔ اس لیے اسکولوں کا کردار بچوں کی جسمانی سرگرمیوں کو فروغ دینے میں انتہائی اہم ہے۔ اسکولوں کو نصاب میں جسمانی تعلیم کو زیادہ اہمیت دینی چاہیے اور کھیل کے اوقات کو بڑھانا چاہیے۔ میری ایک استانی دوست نے بتایا کہ وہ اپنے اسکول میں ہر روز 15 منٹ کی “برین بریک” کے دوران بچوں کو کچھ جسمانی سرگرمیاں کراتی ہیں، جس سے نہ صرف ان کی توانائی بحال ہوتی ہے بلکہ وہ اگلے لیکچر کے لیے زیادہ تیار رہتے ہیں۔ اسکولوں کو بین اسکول مقابلے، اسپورٹس فیسٹیول اور فٹنس چیلنجز بھی منعقد کرنے چاہئیں تاکہ بچوں میں کھیل کود کا شوق پیدا ہو۔

  • جسمانی تعلیم کے اوقات میں اضافہ
  • کھیلوں کی سہولیات کی بہتری
  • اسپورٹس کلبز اور سمر کیمپس کا انعقاد

ڈیجیٹل دور میں روایتی کھیل: ایک نئی امید

آج جب ہر طرف ڈیجیٹل گیمز کا راج ہے، مجھے ایسا لگتا ہے جیسے ہمارے بچپن کے روایتی کھیل کہیں کھو گئے ہیں۔ لیکن میرا ماننا ہے کہ یہ کھیل آج بھی ہمارے بچوں کے لیے ایک نئی امید کی کرن بن سکتے ہیں۔ “گلی ڈنڈا”، “پٹھو گرم”، “لکڑ چھپائی”، “آنکھ مچولی” – یہ صرف کھیل نہیں تھے، بلکہ یہ ہماری ثقافت کا حصہ تھے، اور ان میں جسمانی سرگرمی کے ساتھ ساتھ معاشرتی مہارتوں کی بھی بہترین تربیت ملتی تھی۔ میرے ایک کزن نے اپنی بیٹی کو چھپن چھپائی سکھائی، اور وہ اتنی خوش ہوئی کہ اس نے فوراً اپنے دوستوں کے ساتھ اسے کھیلنا شروع کر دیا۔ یہ ایک بہت ہی سادہ لیکن موثر طریقہ ہے بچوں کو اسکرین سے دور کرنے کا۔ ان کھیلوں میں زیادہ مہنگے سامان کی ضرورت نہیں ہوتی، بس تھوڑی سی جگہ اور کھیلنے والوں کا جوش و جذبہ کافی ہوتا ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کو ان کھیلوں سے متعارف کرانا چاہیے اور انہیں ان کی اہمیت سمجھانی چاہیے تاکہ وہ نہ صرف جسمانی طور پر فعال رہیں بلکہ اپنی ثقافت سے بھی جڑے رہیں۔ ان کھیلوں کو دوبارہ زندہ کرنا صرف تفریح نہیں، بلکہ یہ ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل کی طرف ایک قدم ہے۔

1. روایتی کھیلوں کے صحت پر فوائد

روایتی کھیلوں میں دوڑنا، کودنا، جھکنا اور اٹھنا شامل ہوتا ہے، جو بچوں کے تمام پٹھوں کو استعمال میں لاتا ہے۔ یہ کھیل نہ صرف جسمانی فٹنس کو بڑھاتے ہیں بلکہ توازن اور ہم آہنگی کو بھی بہتر بناتے ہیں۔ “پٹھو گرم” میں گیند پھینکنا اور بچنا بچوں کی ردعمل کی رفتار کو تیز کرتا ہے۔ یہ کھیل بچوں میں قدرتی طور پر اسٹیمنا پیدا کرتے ہیں اور ان کی قوت برداشت میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہ ایک سستا اور انتہائی موثر طریقہ ہے بچوں کو فعال رکھنے کا، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں جدید کھیلوں کی سہولیات میسر نہیں۔

2. ثقافتی تعلق اور معاشرتی مہارتیں

روایتی کھیل صرف جسمانی نہیں بلکہ ثقافتی اور معاشرتی لحاظ سے بھی اہم ہیں۔ یہ کھیل ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتے ہیں اور بچوں کو اپنی جڑوں سے جوڑتے ہیں۔ ان کھیلوں میں اکثر ٹیم ورک اور باہمی تعاون کی ضرورت ہوتی ہے، جو بچوں میں معاشرتی مہارتیں پیدا کرتا ہے۔ “آنکھ مچولی” میں چھپنے اور ڈھونڈنے سے بچوں میں صبر اور حکمت عملی کی سمجھ پیدا ہوتی ہے۔ یہ کھیل انہیں دوسرے بچوں کے ساتھ مل کر کھیلنا، قواعد کی پاسداری کرنا اور جیت ہار کو قبول کرنا سکھاتے ہیں، جو کہ ان کی شخصیت کی مضبوطی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔

  • ثقافتی اقدار سے روشناس ہونا
  • ٹیم ورک اور قیادت کی صلاحیتوں میں اضافہ
  • باہمی تعاون اور تعلقات کی مضبوطی

صحت مند مستقبل کی بنیاد: آج کی سرمایہ کاری

مجھے ذاتی طور پر یہ احساس ہمیشہ سے ہوتا رہا ہے کہ بچوں کی صحت مند نشوونما پر آج کی جانے والی سرمایہ کاری ہمارے مستقبل کی نسلوں کے لیے ایک پائیدار بنیاد فراہم کرتی ہے۔ جب ہم اپنے بچوں کو جسمانی سرگرمیوں میں مشغول ہونے کی ترغیب دیتے ہیں، تو ہم صرف ان کی موجودہ صحت کو بہتر نہیں بنا رہے ہوتے، بلکہ ہم انہیں زندگی بھر کی اچھی عادات بھی سکھا رہے ہوتے ہیں۔ یہ وہ عادات ہیں جو انہیں بڑی عمر میں بھی صحت مند اور فعال رہنے میں مدد دیں گی۔ آج کے بچے کل کے بالغ ہیں، اور اگر وہ بچپن سے ہی سست طرز زندگی کے عادی ہو گئے، تو یہ ان کے پورے مستقبل پر منفی اثرات ڈالے گا۔ ایک صحت مند فرد ہی ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل کر سکتا ہے۔ یہ ایک ایسی سرمایہ کاری ہے جس کا منافع صرف بچوں کو نہیں ملتا بلکہ اس کا فائدہ پورے خاندان، کمیونٹی اور ملک کو ہوتا ہے۔ ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بچے تیزی سے بڑے ہوتے ہیں، اور یہ بچپن کا قیمتی وقت پھر کبھی واپس نہیں آتا۔ اس لیے، یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس وقت کو بہترین طریقے سے استعمال کریں اور انہیں وہ مواقع فراہم کریں جن کے وہ حقدار ہیں۔

1. دیرپا صحت کے فوائد

بچپن کی جسمانی سرگرمیاں زندگی بھر کے لیے صحت کے فوائد فراہم کرتی ہیں۔ جو بچے باقاعدگی سے کھیلتے کودتے ہیں، ان میں موٹاپے، ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر اور دل کی بیماریوں کا خطرہ نمایاں طور پر کم ہوتا ہے۔ یہ انہیں ہڈیوں کی کمزوری اور پٹھوں کے مسائل سے بھی بچاتا ہے۔ میرے ماموں کا بیٹا، جو بچپن میں بہت فعال تھا، آج بھی بڑی عمر میں بھی صحت مند اور توانا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بچپن میں کی جانے والی محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ یہ ان کی قوت مدافعت کو بھی مضبوط کرتی ہے، جس سے وہ بیماریوں کے خلاف زیادہ بہتر طریقے سے لڑ سکتے ہیں۔

2. تعلیمی اور پیشہ ورانہ کامیابی کا راستہ

صحت مند بچے نہ صرف جسمانی طور پر بہتر ہوتے ہیں بلکہ ان کی تعلیمی اور پیشہ ورانہ کارکردگی بھی نمایاں ہوتی ہے۔ جسمانی سرگرمیاں دماغ کو آکسیجن فراہم کرتی ہیں، جس سے بچوں کی توجہ، یادداشت اور سیکھنے کی صلاحیتیں بہتر ہوتی ہیں۔ ایک تجربہ کار ٹیچر نے مجھے بتایا کہ جو بچے کھیل کے میدان میں سرگرم ہوتے ہیں، وہ کلاس میں زیادہ حاضر دماغ اور پرجوش نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ، کھیل کود سے پیدا ہونے والی نظم و ضبط، ٹیم ورک اور قائدانہ صلاحیتیں انہیں مستقبل میں پیشہ ورانہ زندگی میں بھی کامیاب بناتی ہیں۔ یہ صرف ڈگری حاصل کرنے کا معاملہ نہیں، بلکہ یہ ایک مکمل اور متوازن شخصیت کی تعمیر ہے جو ہر میدان میں آگے بڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

آخر میں

تو دیکھا آپ نے کہ کس طرح ہمارے بچوں کا اسکرین پر بڑھتا ہوا وقت نہ صرف ان کی جسمانی صحت کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ ان کی ذہنی اور جذباتی نشوونما کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ یہ صرف اعداد و شمار کی بات نہیں، یہ ہمارے اپنے بچوں کا مستقبل ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس بلاگ پوسٹ نے آپ کو اس مسئلے کی گہرائی اور اس سے نمٹنے کے لیے عملی طریقوں کو سمجھنے میں مدد دی ہوگی۔ یاد رکھیں، ایک صحت مند جسم ہی ایک صحت مند دماغ کی بنیاد ہے، اور یہ بنیاد ہمیں اپنے بچوں کے بچپن میں ہی رکھنی ہوگی۔ آئیں، آج ہی سے اپنے بچوں کو میدانوں کی طرف لوٹائیں اور انہیں ایک فعال، صحت مند اور خوشحال زندگی کا تحفہ دیں۔

کارآمد معلومات

1. چھوٹے بچوں (2-5 سال) کے لیے اسکرین ٹائم ایک گھنٹے سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے، جبکہ بڑے بچوں کے لیے اسے متوازن رکھنا اور صرف تفریح کے بجائے تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال کرنا ضروری ہے۔

2. بچوں کو روزانہ کم از کم 60 منٹ کی جسمانی سرگرمیوں میں مشغول ہونا چاہیے، جس میں دوڑنا، کودنا اور کھیل شامل ہوں۔

3. والدین کو بچوں کے ساتھ مل کر ہفتہ وار جسمانی سرگرمیاں جیسے سائیکل چلانا، چہل قدمی یا پارک میں کھیلنا چاہیے۔

4. اسکولوں کو اپنے نصاب میں جسمانی تعلیم اور کھیلوں کو زیادہ اہمیت دینی چاہیے تاکہ بچوں کی ہمہ جہت نشوونما ہو سکے۔

5. اسکرین کے متبادل کے طور پر بچوں کو کتابیں پڑھنے، بورڈ گیمز کھیلنے، ڈرائنگ کرنے یا تخلیقی سرگرمیوں میں مشغول ہونے کی ترغیب دیں۔

اہم نکات کا خلاصہ

اس بلاگ پوسٹ میں ہم نے بچوں کی بڑھتی ہوئی اسکرین ٹائم کے ان کی صحت پر گہرے منفی اثرات کو تفصیل سے دیکھا، جن میں جسمانی، ذہنی اور جذباتی مسائل شامل ہیں۔ اس کے برعکس، کھیل کود کے وسیع فوائد کو بھی اجاگر کیا گیا جو ہڈیوں اور پٹھوں کی مضبوطی، دل کی صحت، ذہنی چستی اور جذباتی استحکام کے لیے ناگزیر ہیں۔ والدین، اسکولوں اور کمیونٹی کی ذمہ داریوں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ وہ کس طرح بچوں کو فعال رکھنے اور روایتی کھیلوں کو فروغ دینے میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ آخر میں، یہ واضح کیا گیا کہ بچوں کی جسمانی صحت پر آج کی جانے والی سرمایہ کاری ان کے صحت مند اور کامیاب مستقبل کی بنیاد ہے۔

اکثر پوچھے گئے سوالات (FAQ) 📖

س: آج کے دور میں بچوں کی جسمانی سرگرمیاں کم ہونے کی بنیادی وجوہات کیا ہیں؟

ج: میں نے اپنے بچپن میں دیکھا ہے کہ گلیوں میں ہر وقت بچوں کا شور ہوتا تھا، ہم گھنٹوں گلی ڈنڈا، پکڑن پکڑائی، اور کرکٹ کھیلتے تھے۔ مگر اب سچ پوچھیں تو مجھے ایسا منظر شاید ہی نظر آتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ جو میں محسوس کرتا ہوں وہ اسکرین کا بڑھتا ہوا استعمال ہے – ٹی وی، موبائل فونز اور ویڈیو گیمز نے بچوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیا ہے۔ دوسرا، آج کل والدین بھی بچوں کو باہر بھیجنے سے کتراتے ہیں، یا تو وہ وقت نہیں نکال پاتے یا پھر حفاظتی خدشات آڑے آ جاتے ہیں۔ مجھے تو یوں لگتا ہے جیسے بچوں کی “باہر کی دنیا” کہیں کھو سی گئی ہے۔ ہماری مصروف زندگیوں نے بچوں کے لیے کھیل کے میدان اور وقت دونوں چھین لیے ہیں۔

س: بچوں کی جسمانی سرگرمیاں کم ہونے سے ان کی صحت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں، خاص طور پر جسمانی اور ذہنی صحت پر؟

ج: یہ بات صرف مشاہدے کی نہیں، ڈاکٹرز اور ماہرینِ نفسیات سب متفق ہیں کہ اس کے نہایت خطرناک نتائج ہیں۔ جسمانی طور پر، بچوں میں موٹاپا بڑھتا جا رہا ہے، ان کی ہڈیاں کمزور ہو رہی ہیں، اور ذیابیطس جیسے امراض کم عمری میں ہی گھر کر رہے ہیں۔ مجھے تو ایسے بچے دیکھ کر افسوس ہوتا ہے جو اتنی چھوٹی عمر میں بھی تھک جاتے ہیں۔ ذہنی اور جذباتی طور پر بھی یہ کمی بہت نقصان دہ ہے۔ جو بچے کم جسمانی سرگرمی کرتے ہیں، ان میں چڑچڑاپن، بے چینی، اور توجہ کی کمی جیسے مسائل زیادہ پائے جاتے ہیں۔ میں نے خود محسوس کیا ہے کہ کھیل کود نہ صرف جسم کو طاقت دیتا ہے بلکہ دماغ کو بھی ہشاش بشاش رکھتا ہے اور بچوں کو سماجی مہارتیں سکھاتا ہے، جو اسکرین کے سامنے بیٹھ کر کبھی نہیں سیکھی جا سکتیں۔

س: والدین اور معاشرے کی حیثیت سے ہم بچوں کو دوبارہ کھیل کود کی طرف راغب کرنے اور انہیں جسمانی طور پر متحرک رکھنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟

ج: یہ ایک بہت اہم سوال ہے اور میرے خیال میں اس کی ذمہ داری صرف والدین پر نہیں بلکہ پورے معاشرے پر ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اسکرین کا وقت محدود کریں اور خود بھی بچوں کے ساتھ کھیلیں – مجھے یاد ہے میرے والد صاحب شام کو ہمارے ساتھ فٹ بال کھیلتے تھے اور وہ لمحے مجھے آج بھی یاد ہیں۔ بچوں کو پارک لے جائیں، سائیکل چلانے کی ترغیب دیں، یا کوئی سپورٹس کلب جوائن کروائیں۔ معاشرتی سطح پر ہمیں اپنے محلوں میں بچوں کے لیے محفوظ اور مناسب کھیل کے میدان بنانے چاہئیں، اور کمیونٹی کے پروگرام منعقد کرنے چاہئیں جہاں بچے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کھیل سکیں۔ یہ صرف ایک مشغلہ نہیں بلکہ ان کی بہترین نشوونما کے لیے ایک بنیادی ضرورت ہے اور مجھے یقین ہے کہ اگر ہم سب مل کر کوشش کریں تو اپنے بچوں کو ایک صحت مند اور فعال مستقبل دے سکتے ہیں۔